سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے گذشتہ ماہ( نومبر 2024 )میں تین ہزار ??وب??س ??ئی کمپنیاں رجسٹرڈ کی ہیں جس کے بعد ملک میں رجسٹرڈ کمپنیوں کی کل تعداد 2361106 تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر پر بڑھتے ہوئے اعتماد اور اس کی مسلسل ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔
ایس ای سی پی کا کہنا ہے کہ رواں ماہ ( دسمبر ) میں ہونے والی 99 فیصد کمپنیوں کی رجسٹریشن پر اب ڈیجیٹل طور پر کی جا رہی ہے جو کمیشن کی ہموار، ٹیک پر مبنی ریگولیٹری ماحول فراہم کرنے کی کوششوں م??ں ایک اور اہم قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔اورجو شفافیت کو فروغ دیتا ہے اور پاکستان میں کاروبار کرنے میں آسانی کی حمایت کرتا ہے۔
پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں نے کل ??ئی رجسٹریشنز کا 58 فیصد حصہ لیا، جب کہ سنگل ممبرکمپنیوں نے 39 فیصد نمائندگی کی ہے، باقی 3 فیصد میں پبلک نان لسٹڈ کمپنیاں، غیر منافع بخش ادارے، تجارتی تنظیمیں، اور محدود ذمہ داری کی شراکت داری (ایل ایل پیز) شامل ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ای کامرس کے شعبوں م??ں سب سے زیادہ ترقی ہوئی، جس میں 641 ??ئی کمپنیاں شامل ہوئیں۔ خدمات کے شعبے میں 599 ??ئی کمپنیوں کے ساتھ قریب سے پیروی کی، 510 ??ئی کمپنیوں کے ساتھ تجارت، رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ کنسٹرکشن نے 315 ??ئی کمپنیاں ریکارڈ کیں۔
اس ترقی میں حصہ ڈالنے والے دیگر شعبوں م??ں 345 ??ئی کمپنیوں کے ساتھ خوراک، صحت کی دیکھ بھال اور فارماسیوٹیکل، 213 کے ساتھ سیاحت اور ٹرانسپورٹ اور 247 ??ئی رجسٹریشن کے ساتھ توانائی، بجلی اور ایندھن کا شعبہ شامل ہے۔
دیگر شعبوں م??ں 154 کمپنیاں رجسٹر ہوئیں کارپوریٹ سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری نے بھی ترقی کے حوصلہ افزا ئی کے اشارے دکھائے، 79 ??ئی کمپنیوں نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے سرمایہ حاصل کیا۔ ان سرمایہ کاروں کا تع??ق آسٹریا، چین، جرمنی، انڈونیشیا، ملائیشیا، ناروے، عمان، روس، اسپین، شام، افغانستان اور ترکی سمیت مختلف ممالک سے تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین سب سے بڑے سرمایہ کار کے طور پر ابھرا، جس نے 56 ??ئی کمپنیوں کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا، اس کے بعد 7 کے ساتھ افغانستان اور 3 کے ساتھ ناروے کا نمبر آتا ہے۔
ایس ای سی پی اپنے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بڑھانے اور کاروباری عمل کو مزید آسان بنانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیا جا سک، ے سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے، ٹرن آراوٴنڈ ٹائم کو کم کیا جا سکے اور پائیدار اقتصادی ترقی کو آگے بڑھایا جا سکے۔